خون اپنا ہو يا پرايا ہو
نسلِ آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق ميں ہو کہ مغرب ميں
امنِ عالم کا خون ہے آخر
بم گھروں پر گريں کہ سرحد پر
روح تعمير زخم کھاتی ہے
کھيت اپنے جليں کہ اوروں کے
زيست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹينک آگے بڑھيں، کہ پيچھے ہٹيں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی ميتوں پر روتی ہے
جنگ تو خود ہی ايک مسئلہ ہے
جنگ کيا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتياج کل دے گی
اس ليے اے شريف انسانو !
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن ميں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
برتری کے ثبوت کی خاطر
خوں بہانا ہی کيا ضروری ہے
گھر کی تاريکياں مٹانے کو
گھر جلانا ہی کيا ضروری ہے
جنگ کے اور بھی تو ميدان ہيں
صرف ميدانِ کشت و خوں ہی نہيں
حاصلِ زندگی خِرد بھی ہے
حاصلِ زندگی جنوں ہی نہيں
آؤ اس تيرہ بخت دنيا ميں
فکر کی روشنی کو عام کريں
امن کو جن سے تقويت پہنچے
ايسی جنگوں کا اہتمام کريں
جنگ، وحشت سے، بربريت سے
امن، تہذيب و ارتقاء کے ليے
جنگ، مرگ آفريں سياست سے
امن، انسان کی بقاء کے لیے
جنگ، افلاس اور غلامی سے
امن، بہتر نظام کي خاطر
جنگ بھٹکي ہوئي قيادت سے
امن، بےبس عوام کي خاطر
جنگ، سرمائے کے تسلط سے
امن، جمہور کي خوشي کے ليے
جنگ، جنگوں کے فلسفے کے خلاف
امن، پُرامن زندگي کے ليے‘
(ساحر لدھيانوي)